میرے لئے بائیسکل خرید دیجئے’’ ایک غریب خاندان کے لڑکے نے اپنے باپ سے کہا۔ باپ کے لئے بائیسکل خریدنا مشکل تھا۔ اس نے ٹال دیا ۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ آخر کار ایک روز باپ نے ڈانت کر کہا‘‘ میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا۔’’ یہ سن کر لڑکے کی آنکھ میں آنسو آگئے ۔ وہ کچھ دیر تک چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا‘‘ آپ ہی تو ہم...ارے باپ ہیں پھر آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں’’ اس جملہ نے باپ کو تڑپا دیا ۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا ‘‘ اچھا بیٹے ، اطمینان رکھو۔ میں تم کو ضرور بائیسکل دوں گا۔’’ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اگلے دن اس نے پیسہ کر کے بیٹے کے لئے نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی۔جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہو گئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطہ پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لئے بھی اتنا بڑا مسئلہ بن گئی جتنا وہ خود اس کے اپنے لئے تھی۔
یہ انسانی واقعہ خدائی واقعہ کی تمثیل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دعا ہےجو لوٹائی نہیں جاتی۔ یہ وہ دعا ہےجس میں بندہ اپنے پوری ہستی کو انڈہل دیتا ہے ۔ جب بندہ کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین و آسمان بھی نہ کر سکیں۔جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کرلیتا ہے کہ ‘‘ بیٹا’’ اور ‘‘ باپ’’ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہےجب کہ دعا محض زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔
اس وقت خدا کی رحمیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو جاتے ہیں۔ قادر مطلق عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لےلیتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment