Saturday, March 22, 2014

امسلم معاشروں میں ٹکراو کا رجحان

Leave a Comment
نوآبادیاتی نظام کے زمانے سے لیکر اب تک یعنی پچھلے دو تین سو سالوں سے مسلمانوں کےاندراہل علم میں بالعموم دو طرح کے طبقات ابھر کر سامنے آۓ ہیں- ایک جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور دوسرا روایتی فکرکا حامل طبقہ - اول الذکر طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جوجدید مغربی علوم سے آراستہ ہیں اورکافی تعداد میں مقتدر حلقوں میں اسررسوخ رکھتے ہیں جبکہ موخرالذکرطبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جویا تو دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں یا انفارمل طریقوں سے علماۓ دین سے علم حاصل کرلیتے ہیں- ان طبقوں کی سوچ اور فکر میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے- اگر چہ ان میں سے ہر طبقے کے اندر بھی مختلف الخیال اہل علم پاۓ جاتے ہیں اور ان میں باہم شدید اختلافات بھی پاۓ جاتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی وہ مذکورہ بالا طبقوں میں سے ہی کسی ایک سے تعلق رکھتے ہیں- آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ ان طبقوں کی چیدہ چیدہ خصوصیات پر مختصر بات ہوجاۓ-
جدید تعلیم یافتہ طبقہ: اس طبقے کے لوگ یا تو اپنے اپنےآبائی ممالک کے اندرقائم سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں سے مغربی تعلیم حاصل کرتے ہیں یا دیگر ممالک میں جاکر پڑھ لیتے ہیں- یہ لوگ مغربی مفکرین، سوشل سائنٹسٹس، فلسفی اور سائینسدانوں کے افکار سےمتاثر ہیں اورانسانی زندگی میں بالخصوص ریاستی معاملات میں مذہب کو کوئی خاص مقام دینےکے قائل نہیں- زیادہ سے زیادہ وہ مذہب کو مابعداطبیبیاتی تصورات کا ایک ایسا مجموعہ سمجھتے ہیں جن کا تعلق اور دائرہ اثر ہر شخص کی اپنی ذات تک محدود ہے- اس وجہ سے ان لوگوں کے نزدیک اسلام کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہۓ اور ایسی کسی کوشش سے معاشرے میں شراور فساد کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا- ان میں ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں جو عملا" دین سے بیزار ہوچکے ہیں- ان میں سےکچھ تو ایسے لوگ ہیں جو اسلام پر دبے لہجے میں اعتراضات کرتے رہتے ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جواسلامی شعائرپرکھلم کھلا طنزودشنام طرازی سے بھی نہیں چوکتےاور کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنی فہم کے مطابق کچھ دینی احکام کی ایسی تشریحات اور تاویلات بھی کرتے ہیں جن کا اصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں- ان کی نظر میں مسلمانوں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ مغربی طرز کے ادارے، قوانین اور علوم حاصل کرکےچودہ سو سال سے رائج فرسودہ افکار، قوانین اور اداروں سے جان چھڑائی جاۓ-
اہل مدارس کا طبقہ: یہ لوگ مدارس سے یا ذاتی حیثیت میں علماء سےعلم دین حاصل کرتے ہیں- اگرچہ ایسے گنےچنے لوگ بھی ملیں گےجوبیک وقت علوم جدید اورروایتی اسلامی علوم دونوں میں ماہر ہوتےہیں لیکن عمومی فکر کے حوالے سے اہل مدارس ہی کےزیادہ قریب ہوتے ہیں- اس طبقے کے لوگوں کےباہمی خیالات میں بھی کافی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی پہلے طبقے کے مقابلے میں ان کے خیالات چند اہم اصول پر مشترک ہیں مثلا" یہ کہ اسلام آج بھی انسانیت کے لۓ راہنمائی کا ذریعہ ہے، مغرب کی اندھی تقلید ایک نا معقول طرز عمل ہے جس سے مسلمانوں کا نظریاتی تشخص خطرے میں پڑجائیگا- جدید علوم کے حصول کےلۓ اسلامی عقائد، اداروں اورعلوم کو رد کرنا ضروری نہیں ہے- اسلام کے احکام صرف شخصی نوعیت کے نہیں بلکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر لاگو ہوتے ہیں اسی لۓوہ فرد کےذاتی معاملات سے لیکر ریاست، سیاست، معیشت اوربین الاقوامی امور تک کے لۓبین اصول و ضوابط رکھتا ہے-
اس فکری تقسیم نے تناو اور کشاکش کی کی ایک فضا کوجنم دیا جو مختلف شکلوں اورمراحل سے گزرکر آج بھی ہمارے سامنے موجود ہے- وقت اور حالات کے زیر اثر اختلاف اور رویوں میں سخت گیری اور عدم برداشت کوتقویت ملی ہے- نتیجتا"وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کیمپوں میں ایسے عناصر بھی سامنےآۓ جوانتہاپسندی اور تشدد کے راستے پر چل پڑے – اس طرح یہ فکری اور نظریاتی تقسیم بحث ومباحثے کےدائرے سے نکل کرپر تشدد کارورائیوں پرمنتج ہوگئی- آج کئی مسلم ممالک میں ان دو طرح کے انتہا پسندوں کےباہمی ٹکراو اورکشاکش کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے- ہر ایک فریق سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اورحتمی کامیابی اسی کو نصیب ہوگی- کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام، اس کا فیصلہ تو ابھی مشکل ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ کشاکش جلد ختم ہونے والی نہیں بلکہ اس کی شدت میں مزید اضافہ کے قوی امکانات ہیں- جہاں اسلام اور دیگرمذاہب کے درمیان بحث اور پرامن بقاۓ باہمی کی بات ہورہی ہے وہاں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ خود اسلامی ممالک کے اندر پائی جانی والے انتہا پسندانہ رجحانات اور ٹکراو کے مہلک اثرات سے بچنے کی پیش بند کی جاۓ- اس کام کی ذمہ داری تو بنیادی طور پر صاحبان اقتدارکی ہے لیکن اہل علم سیمت معاشرے کے تمام شعبوں کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا- (جاری ہے

از کرم الہی، پشاور پاکستان

0 comments:

Post a Comment