Wednesday, March 5, 2014

مظفرآباد کے مین اسٹاپ پر اختر بریانی هاوس پر بیٹها یہ شخص "

Leave a Comment
چلو آپ کو اس کی کہانی سناتا هوں، جہلم کے ایک دور دراز گاؤں میں پیدا هوئے اس کا بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر هے، والد ایک غریب مزاره روکهی سوکهی پر اپنے خاندان کی کفالت کی ذمیداری نبها رها تها
بچوں کی تعلیم کا تو تصور تک نہیں تها.وجہ غربت افلاس، ایک دن والد نے سوچا میرے بچے یہی گاؤں میں رهے تو بڑے هوکر جو میں کر رها هوں وهی کریں گے. بڑے زمیداروں کی زمینوں پر غریبوں کا پسینہ"
گاؤں سے کراچی کے لیئے هجرت، جس حال میں کی وه پهر کبهی،
کراچی پہنچ کر جیسے تیسے کر کے بچوں کی پیٹ کی آگ بجهانے کے لیئے باگ دوڑ شروع کی.اس امید پر کے آگے چل کے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست هو جائے گا،لیکن
بہت کوشش کے باوجود وه بچوں کے پیٹ کی آگ بجهانے پر هی پوری زندگی وقف کر دی
بہن بهائیوں میں دوسرے نمبر کا یہ بچہ، اس کو اللہ نے بچپن سے هی خداداد صلاحیتوں سے نوازه هے
مختصر یہ کے سنوکر گیم کا اپنے ٹاون میں همیشہ چمپیئن رها،
بلا کا ذهین شخص
اس نے باپ کی یہ کسمپرسی کی حالت دیکهی تو اسنے شروع میں چهپ چهپ کر 8 سال کی عمر میں علاقے کے چهوٹے موٹے هوٹلوں میں کام شروع کیا.اور پهر ساتھ ساتھ محلے کے عام ٹیوشن سنٹر میں پڑهنا شروع کیا،
اور کام کر کے گهرکی ضروریات بهی پوری کرنے لگا،
اس نے هوٹل پہ ٹیبل کی صفائ تندور پر پیڑے سے لے کر روٹی پکانے چائے بنانے گولا گنڈه جیسے بے شمار کام کیئے.
یہاں تک کے دو بهائیوں اور بہنوں کو تعلیم بهی دلوائ خود بهی تعلیم حاصل کی اور بہن بهائیوں کی شادی تک کرادی،
ایک وقت ایسا آیا کے والد محترم کا سایہ سرسے اٹھ گیا.
یہ موصوف اپنی محنت اور ذهانت سے کامیابیوں کے زینے عبور کرتا رها
اور پهر وه وقت بهی آیا اس پر کے یہ ٹیکسٹائل انجینئر بنا اور گارمنٹ کی دنیا میں بہت شهرت اور دولت اس کے سامنے هاته جوڑے کهڑی تهی.
اب اس کی والده کی آخری خواهش یہ تهی کے اپنے اس ماسٹر مائنڈ بچے کی شادی هو جائے
اس بچے نے ماں کے حکم کے سامنے سر جهکا دیا.اور رشتہ کی تلاش شروع هوئ اور ایک جگہ بات پکی هوئ
لیکن قدرت کو کچھ اور هی منظور تها
اسے عشق کی بیماری لاحق هوئ اور یہ بیماری اتنی شدید تهی کے اس کا علاج اب تک لاعلاج هی رها
زندگی کے 30 سال محنت لگن جدوجہد گرمی سردی خزاں بہار کا تن تنہا مقابلا کرنے والا یہ شخص جسے لوگ ملک شهزاد اعوان عرف بللی دادا کے نام سے جانتے هیں
آج عشق کی بیماری نے اس شخص کو اس حال تک پہنچادیا
یہ آج بهی همارے مین اسٹاپ پر رات کے وقت لوگوں کو گزرے دنوں کی آپ بیتی سناتا هے اور لوگ تفریح لے کے اسے کهانا اور چائے وغیره پلا دیتے هیں
اللہ اس دنیاوی عشق کی بیماری سے هر ایک کو محفوظ فرمائے"
یہ تصویر ایک بریانی کی پلیٹ کے بدلے حاصل کی هے"



0 comments:

Post a Comment