Thursday, March 13, 2014

تھر، قحط اور تلخ حقیقت

Leave a Comment

                                     
تھر میں بچے بھوک سے مرے تو میڈیا چیخ اٹھی۔ تب کہیں جاکے حکومت سندھ کو یادآئی کہ موہنجودڑو جہاں سندھ فیسٹیول کے نام پر کروڑوں خرچ کیے گیے وہاں ضلع تھر بھی ہیں جہاں انسان اور جانور آج بھی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں اور دونوں ایک ہی وجہ یعنی بھوک سے مرتے ہیں۔ سندھ حکومتی ذمہ داران کی یہ منظق بالکل درست ہیں کہ نا یہ قحط ایک روز میں آیا اور نا تھر کی پسماندگی نوعمر ہیں۔مگر دوسرے جانب لوگ کہتے ہیں کہ یہ پسماندگی اور قحط دونوں حکومت ہی کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ سندھ کے موجودہ حکمران جو گزشتہ پانچ سال صوبے کیساتھ ساتھ مرکز میں بھی برسراقتدار تھے۔ اور روٹی ، کپڑا، مکان کو آج بھی اپنی ماٹو ٹہرا رہہے ہیں ۔ اخیر وہ ضروری اقدامات کیوں نہ کرسکے ۔ جس کی بدولت تھر کی پسماندگی ختم نہیں تو کم ضرور ہوتی اور اس وقت قحط کی شکل میں عذاب نازل نہ ہوتی۔ بہرحال میڈیا پر خبر آنے کی بعد مرکز اور صوبے کی دونوں حکومتیں حرکت میں آئی ہیں۔ علاوہ ازیں فوج سمیت کچھ فلاحی ادارے بھی سرگرم عمل ہوچکے ہہں ۔ جن میں الخدمت فاونڈ ینشن ، فلاح انسانیت فاونڈ یشن سمیت ایدھی اور دیگر ادارے شامل ہیں البتہ جن اداروں کو بار بار آنکھوں نے دیکھنا چاہا اور ان کی ریلیف کام کے حوالے سے کانوں نے سننا چاہا ۔ وہ انسانی حقوق کیئلے بنی سینکڑوں ادراے ہیں۔ جو کبھی رمشا مسیح کے نام پر آسمان سر پر اٹھاتے ہیں ، تو کبھی سلمان تاثیر کی دفاع کیئلے حقوق انسانی کی خود تراشیدہ تاویلات پیش کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں دختر پاکستان فقط انگلینڈ کے یخ بستہ فضا میں رہنی والی ملالہ ہیں ۔ لہذا ان اداروں کیلئے تھر کے مقہوراور مجبور بچوں کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے ۔ اسلیئے ہمارے آنکھوں اور کانوں کو کچھ نا دیکھنا اور نا سننا فطری امر ٹہرا۔اس طویل مگر ضروری تمہید کے بعد اہم سوال یہ ہے کہ اس قحط کی ذمہ دار کون ہیں۔ حکومت ؟ جس کو اکثر لوگ مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔ یا عوام؟ جو آج بھی اپنی قسمت کی فیصلے سردار اور جاگیردار وڈیرے کی ہاتھ میں دیئے ہویے ہیں۔ ضلع تھر کے مجبور و مقہور عوام کو دیکھا تو اقبال کا مشہور زمانہ شعر یاد آیا۔تقدیر کی قاضی کا یہ فتوئ ہے ازل سےہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
موجودہ پاکستان میں جب ہر طرف جمہوریت جمہوریت کی شور ہے۔ اسی ہی جمہوریت میں پیپلزپارٹی کی دستور کی مطابق طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ۔ کوئی کس طرح یقین کرسکتا ہے کہ ضلع تھر کے عوام اتنے لاچار اور بے بس ہونگے۔ مگر یہ سچ ہے کہ تھر کے عوام لاچار بھی ہیں، بے بس بھی ہیں اور کچھ لوگوں کے مطابق حالیہ قحط کی اصل ذمہ دار بھی۔اس حوالے سے اسلام اور تاریخ دونوں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول علیہ السلام کے فرمان کا مفہوم ہے۔ کہ آخری زمانے میں نااہل لوگ صاحب اقتدار بن جاینگے ۔ ابھی اسی پیمانے کو اٹھالو اور تولو فیسٹیول منانے والوں کو۔ میرے آقا کے اس لافانی فرمان پر دھیان دو تو خود بخود دو ، دو چار کے طرح واضح ہوجایئگا۔ کس کس قسم کے ارسطو، افلاطون، ابن الہیشم،مہاتیر محمد،نیلسن منڈیلا، ماوزے تنگ اور امام خمینی ہمارے ملک میں برسراقتدار ہیں۔ بھولیے مت ابھی کل ہی تو جمشید دستی نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہا تھا۔ کہ پارلیمنٹ لاجز میں شراب اور لڑکیاں لایئ جاتی ہیں۔ اب اگر نااہلی کی تعریف تبدیل ہوچکی ہو تو معذرت خواہ ہو۔اس بات کو بھی چھوڑ کے اگر تاریخ کے اوراق ٹٹولے جائے۔ توکسی  بھی مورخ کو اختلاف نہیں کہ ہندوستان میں نادر شاہی جبر ہو یا انگریز کی طویل مکارانہ حکومت ہر دو کیلئے راستہ عوام کی تن آسانی اور حکمرانوں کی عیاشی تھی اور یہی کچھ آج کے پاکستان میں ہے اگر ہندوستان میں مشہور ہوا تھا کہ شامت اعمال ما صورت نادر گرفت تو یقینا تھر میں مشہور ہونا چاہیے کہ شامت اعمال ما بدست زرداری گرفت۔ زرداری نے سندھ میں ایسے شخص کو وزیر اعلی بنایا ہے جو نام سے تو قایم بھی اور شاہ بھی مگر طرز حکومت میں بیچارا نا قایم ہے نہ شاہ ۔ البتہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ضرور ہے اسیلے ایک نو عمر بلاول کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کیے رہتا ہے۔ تو بات ہورہی تھی تھر کی قحط اور عوام کی بے بسی کی یہ جرم ضعیفی عوام نے خود کی ہے اور شاید یہ اسی جرم کی سزا ہو۔ جس طرح بغداد میں عوام حکمرانوں کی تمام عیاشیوں اور برائیوں پر خاموش رہے۔ تو ھلاکو اور چنگیز کی صورت میں وہ عذاب نازل ہوئی جو ابی تک اواراق تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اس ملک کی عمر چھ دہایئوں سے زیادہ ہوچکا ہے۔ مگر ہنوز یہاں کے عوام اپنی فیصلے خود کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اسلئے چندخاندان ہیں نالایق ، ناہنجار جو ہیاں حکمران بنتے ہیں۔ پھر سیلاب بھی آتے ہیں ، قحط بھی زوروں پھر ہوتی ہیں اور دہشتگردی تو اب معمول بن چکی ہے۔اسلیے عرض یہ ہے کہ تھر کی حالیہ قحط  کی اصل ذمہ دار یہ نااہل حکمران نہیں اگر چہ شریک جرم ضرور ہیں۔ سو اگر آپ کو زمہ دار کی تلاش ہے ۔ تو اپنے آپ میں زندگی پیدا کرو ، اپنا حق مانگنا سیکھو نا ملے تو چھیننا سیکھو۔ جس طرح کہا تھا۔ کہاٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دوخاک امرا کی در ودیوار ہلا دو
لہذا قحط اور پسماندگی کو ختم کرنا ہے تو تھر سمیت ملک بھر کے غریبوں کو اٹھنا ہوگا۔ چلنا ہوگا اور اپنا حق لینا ہوگا ۔ ووٹ کے زریعے، تعلیم اور بیداری کے زریعے ایسا نا ملے تو فقیر کلیئے اور صد دروازے وا ہیں۔

0 comments:

Post a Comment