Wednesday, March 5, 2014

کون کہتا میرے دیس میں کاروبار مندے پڑ گئے ہیں؟

Leave a Comment
میں یہاں گردہ بیچ سکتا ہوں گردہ خرید سکتا ہوں۔عورت کی عزت کیا چیز ہے پوری عورت بیچ سکتا ہوں عورت خرید سکتا ہون،میں ووٹ بیچ سکتا ہوں ووٹ خرید سکتا ہوں، میں بچے بیچ سکتا ہوں بچے خرید سکتا ہوں، میں فتویٰ بیچ سکتا ہوں فتویٰ خرید سکتا ہوں۔انصاف خرید سکتا ہوں انصاف بیچ سکتا ہوں، یہاں جج بکتے ہیں، وکیل بکتے ہیں، یہاں علم بکتا ہے یہاں دین بکتا ہے۔،یہاں تلاوت کے دام ملتے ہیں یہاں نعتیں بیچی جاتی ہے۔ یہاں شاعر کے ایک ایک لفظ کا بھاؤ لگتا ہے یہاں ادیب کے ھر پیرے فقرے کی الگ الگ قیمت لگتی ہے۔یہاں خون بکتا ہے یہاں سکون بکتا ہے۔ یہاں جھوٹ بولنے کی قیمت وصول کی جاتی ہے یہاں سچ بھی اچھی قیمت پر نیلام ہوجاتا ہے۔یہاں باپ بیٹے سے اس کی پرورش کی قیمت لیتا ہے یہاں بیٹا باپ سے اپنی خدمتوں کے روپے کھرے کرتا ہے،یہاں شرافت بھی آپ خرید سکتے ہیں یہاں رسوائی بدنامی کی بھی منہ مانگی رقم مانگی جاتی ہے۔ یہاں ھر کاروباری جلدی میں ہے کہ اسے خریدنے کے فورا" بعد کچھ بیچنا ہوتا ہے۔ میں بھی خریدار تو بھی خریدار، میں بھی دکاندار تو بھی دکاندار، کاروبار کا ایسا جمعہ بازار جس کا ہفتہ اتوار کبھی نہیں آتا۔یہاں عبادتوں کا بھی پروردگار سے سودا طے کر لیا جاتا ہے۔ اتنا دے گا تو اتنے نفل پڑھوں گا۔ اتنا منافع ہوا تو اتنے روزے رکھوں گا۔ مسجد میں سودے مندر میں سودے چرچ میں سودے درباروں پر سودے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چلو آؤ آج ایک نیا سودا کرکے دیکھیں۔

چلو پسینہ دے کر آنسو خریدیں۔ چلو پھول سے خوشبو خرید کر بلبل کے نغمے کے عوض اسے بیچ دیں۔ چلو نیند بیچ کر خواب خریدیں۔ چلو عبادت دے کر اس سے محبت لے لیں۔ چلو دھوپ بارش چاندنی ہوا اس سے شکر کے بدلے حاصل کریں۔ چلو ظالم سے ظلم خرید کر اسے انسانیت دے دیں۔ چلو کسی سے درد لے کر اسے خوشی دے دیں۔ چلو بے وفائی خرید کر وفا دے دیں۔ آؤ ایک طوائف سے اس کی مجبوری خرید کر اسے عزت دے دیں۔ آؤ آؤ میرے ساتھ آؤ وقت کم ہے یہ نہ ہو دکانیں جل کر خاکستر ہو جائیں یہ نہ ہو زمین قدموں کے نیچے سے اپنا دامن سمیٹ لے۔
(..................)

0 comments:

Post a Comment