Wednesday, March 5, 2014

(اقتباس)

Leave a Comment
کل رات جب میں چھت پر چادر بِچھا کر سونے کی تیاری کرہی رہا تھا تبھی میری چار سالہ بیٹی بڑی آہستگی سے چلتی ہُوئی میرے قریب آئی اور مجھ سے لپٹ گئی اپنے ننھے سے سر کو میرے سینے پر رکھا اور ہاتھوں کے شکنجے میرے جسم کے گرد کسنے لگی
میں نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے کیا نیند نہیں آرہی؟
نہیں بابا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے
میں نے کہا پوچھو بیٹا کیا بات ہے
وہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگی بابا یہ آسمان میں کیا چیز چمکتی ہے؟
میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہیں
تب اُس نے دوسرا سوال داغا بابا کیا یہ ہمارے گھر سے بڑے ہیں یا چھوٹے؟
میں نے کہا بیٹا یہ ستارے ہمارے گھر سے بھی بڑے ہیں بلکہ ہمارے شہر بھی بڑے ہیں بلکہ شائد ہماری زمین سے بھی بڑے ہیں
تب اُس نے حیرت سے پوچھا بابا یہ ستارے اتنے بڑے ہیں تو آسمان میں کس چیز سے لٹکے ہوئے ہیں؟
میں نے کہا بیٹا یہ کسی چیز سے بھی نہیں لٹکے بلکہ اللہ کریم کی قدرت سے آسمان میں لٹکے ہیں تبھی میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی کی گرفت میرے جسم پہ مزید سخت ہوگئی میں نے اپنے ایک ہاتھ کو اس کے ننھے ہاتھوں کی گرفت سے نِکالا اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا بیٹا مگر تم پریشان کیوں ہورہی ہو؟
تب اُس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا بابا مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ ستارے آسمان سے گِر نہ پڑیں! بابا کیا یہ ستارے گِر نہیں سکتے؟
میں نے جواباً کہا بیٹا اللہ کریم اپنے بندوں سے بُہت محبت کرتا ہے اس لئے وہ اِن ستاروں کو کبھی ہم پر نہیں گرنے دیگا
بابا کیا اللہ تعالٰی ہم سے کبھی ناراض ہوگیا تو وہ ہم پر ستارے گِرا دیگا؟ اُس نے اگلا سوال داغا
نہیں بیٹا وہ اپنے بندوں پر بُہت مہربان ہے وہ ہم سے ناراض بھی ہوجاتا ہے تو معافی مانگنے پر فوراً خوش بھی ہو جاتا ہے وہ بُہت مہربان ہے بیٹا تُمہاری امّی تم سے جِتنا پیار کرتی ہیں وہ اُس سے بھی بُہت بُہت ذیادہ مُحبت کرتا ہے
بابا اگر مجھ سے غلطی ہوجائے اور میں معافی مانگوں تو کیا اللہ تعالی مجھے معاف کردیگا؟
ہاں بیٹا وہ سبھی کو معاف فرمادیتا ہے
میں نے دیکھا میرے اس جواب سے اُس کہ چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اُس کی گرفت بھی میرے جسم پر کمزور پڑنے لگی تھی
بابا جب تمہیں کسی پر غصہ آتا ہے تو تُم بھی معاف کرکے خوش ہوجاتے ہو؟
میں نے اُسکی جانب دیکھا اور سوچا یہ آج مجھ سے کیسے سوال کر رہی ہے لگتا ہے جیسے میرا ٹیسٹ لیا جارہا ہو حالانکہ میں جانتا ہوں وہ اکثر ایسے سوالات اپنی ماں سے بھی کرتی ہے جس کے جوابات اُس سے نہیں بن پاتے اور وہ مجھ سے کہتی ہے کیا بچی ہے یہ ،،لگتا ہے سوالات کی پٹاری لئے گھومتی ہے،، اور میں ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ بھئی اس کے نام کا عدد آٹھ ہے بُہت اونچی پرواز ہوتی ہے آٹھ والوں کے تخیّلات کی
بابا سوگئے کیا؟میری بیٹی نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے پوچھا
نہیں بیٹا جاگ رہا ہوں میں نے اُس کے سر میں انگلیاں گھوماتے ہوئے کہا۔
بابا آپ نے بتایا نہیں آپ بھی غصہ میں معاف کر دیتے ہونا؟
نہیں بیٹا میں اتنی جلدی معاف نہیں کرپاتا کیونکہ میں بُہت گُنہگار انسان ہوں خُود کو سمجھانے میں وقت لگ جاتا ہے
بابا آپ بھی معاف کردیا کریں نا کہیں اللہ تعالٰی ناراض ہوگیا تو یہ ستارے کہیں ہم پر گِر نہ جائیں
ہاں بیٹا آئندہ کوشش کرونگا ۔ میرے اس جواب کے بعد اُس نے اطمینان سے آنکھیں موند لیں جیسے کوئی اہم پیغام یا امانت دیکر کوئی قاصد کوئی امانتدار کسی بوجھ کے فِکر سے آزاد ہوجاتا ہے
چند لمحوں میں ہی وہ میرے برابر میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی
(اقتباس)

0 comments:

Post a Comment