قرآن کریم میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن اور
صالح بندوں کو جنت کی ابدی بادشاہی سے سرفراز کریں گے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو
ہر بندۂ مؤمن کو سرشار کردینے کے لیے کافی ہے۔ مگر اس کے برعکس ہم یہ
دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جب اہل ایمان آخرت کے حوالے سے دعا مانگتے نظر
آتے ہیں تو ہر جگہ وہ جہنم کے عذابوں سے پناہ مانگتے یا پھر جنت مانگنے سے
قبل جہنم سے عافیت کی درخواست کرتے ہیں۔ مثلاً آل عمران 16:3، آل عمران
191:3، فرقان65:25 وغیرہ۔
ایک سوچنے والے ذہن میں یہ فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کیا سبب ہے؟ قرآن مجید کا گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کا سبب اہل ایمان کی وہ معرفت ہے جو انھیں عطا کی گئی ہوتی ہے۔ اس معرفت کا تقاضا ہے کہ انسان ایمان کو حقیقی طور پر اختیار کرے، عمل صالح کی راہ پر چلے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھے، مگر کبھی اپنے متعلق کسی گھمنڈ اور خوش فہمی کا شکار نہ ہو۔ بندۂ مؤمن سے مطلوب ہے کہ وہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنے عمل کو کچھ نہ سمجھے۔ اس کی نظر اپنے عمل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر ہو جس کے مقابلے میں ہر عمل بے حد پست اور کم ہے۔ اس کی نظر اللہ تعالیٰ کی اُس توفیق پر ہو جس کے بغیر انسان کوئی نیکی اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد انسان اپنے اچھے اعمال سے زیادہ اپنی کوتاہیوں کو یاد رکھتا ہے۔ انکساری کی یہ سوچ انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ جنت مانگنے سے پہلے ہمیشہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔
معرفت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ انسان جہنم کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھے۔ بندۂ مؤمن دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں جیتا ہے۔ وہ قرآن کی آنکھ سے آخرت کے احوال کو اپنے سامنے زندہ دیکھ سکتا ہے۔ انسان کے عجز کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کی معمولی سختی؛سوئی کا چبھنا، دانت کا درد وغیرہ برداشت نہیں کرسکتا، تو وہ جہنم کی سختی اور شدت کو کس طرح معمولی لے سکتا ہے۔ چنانچہ جس طرح دنیا میں انسان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نعمت کے حصول سے قبل مصیبت سے بچنے کی فکر کرتا ہے، اسی طرح آخرت کے معاملے میں بھی اس کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جنت میں داخلے سے قبل اس بات کو یقینی بنالیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے بچالیں گے۔ چنانچہ اس کی دعا کا آغاز اپنے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے پناہ و عافیت طلب کرنے سے ہوتا ہے۔ جہنم کی معرفت کے بعد یہ عین فطری رویہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس رویے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ابھی آخرت کے احوال کی معرفت حاصل نہیں ہوئی۔
مؤمن کی معرفت کا تیسرا پہلو جو جہنم کو اس کی دعاؤں میں فوقیت دے دیتا ہے وہ اس بات کا ادراک ہے کہ ابھی وہ زندہ ہے اور امتحان کی مشقت ابھی باقی ہے۔ اس کا جو بھی نیک و صالح عمل ہے وہ حال میں ہے۔ مستقبل کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ اس کا خاتمہ حسن عمل پر نہ ہو۔ ایسے میں جہنم سے عافیت کی دعا دراصل یہ درخواست ہوتی ہے کہ اسے دنیا میں برے اعمال اور نتیجتاً آخرت میں برے انجام سے بچایا جائے۔
صرف جنت مانگنے کے بجائے صرف جہنم کی پناہ مانگنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخرت میں انسان کو اگر جہنم سے بچالیا گیا تو لازماً اسے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جبکہ جنت میں داخل ہونے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے برے اعمال کی بنا پر میدان حشر کی سختیاں اور جہنم کے عذاب بھگت کر جنت میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ جہنم اور اللہ کی پکڑ سے پناہ مانگنا گویا اس چیز کو یقینی بنانا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو براہِ راست جنت میں داخل فرمائیں۔
خلاصہ یہ کہ انسان ایک انتہائی کمزور مخلوق ہے جبکہ جہنم بدترین عذاب کی جگہ ہے۔ ایسے میں عقلمندی یہی ہے کہ جنت مانگنے سے پہلے ہمیشہ جہنم سے اللہ کی پناہ مانگی جائے.
______
ایک سوچنے والے ذہن میں یہ فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کیا سبب ہے؟ قرآن مجید کا گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کا سبب اہل ایمان کی وہ معرفت ہے جو انھیں عطا کی گئی ہوتی ہے۔ اس معرفت کا تقاضا ہے کہ انسان ایمان کو حقیقی طور پر اختیار کرے، عمل صالح کی راہ پر چلے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھے، مگر کبھی اپنے متعلق کسی گھمنڈ اور خوش فہمی کا شکار نہ ہو۔ بندۂ مؤمن سے مطلوب ہے کہ وہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اپنے عمل کو کچھ نہ سمجھے۔ اس کی نظر اپنے عمل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پر ہو جس کے مقابلے میں ہر عمل بے حد پست اور کم ہے۔ اس کی نظر اللہ تعالیٰ کی اُس توفیق پر ہو جس کے بغیر انسان کوئی نیکی اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد انسان اپنے اچھے اعمال سے زیادہ اپنی کوتاہیوں کو یاد رکھتا ہے۔ انکساری کی یہ سوچ انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ جنت مانگنے سے پہلے ہمیشہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔
معرفت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ انسان جہنم کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھے۔ بندۂ مؤمن دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں جیتا ہے۔ وہ قرآن کی آنکھ سے آخرت کے احوال کو اپنے سامنے زندہ دیکھ سکتا ہے۔ انسان کے عجز کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کی معمولی سختی؛سوئی کا چبھنا، دانت کا درد وغیرہ برداشت نہیں کرسکتا، تو وہ جہنم کی سختی اور شدت کو کس طرح معمولی لے سکتا ہے۔ چنانچہ جس طرح دنیا میں انسان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نعمت کے حصول سے قبل مصیبت سے بچنے کی فکر کرتا ہے، اسی طرح آخرت کے معاملے میں بھی اس کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جنت میں داخلے سے قبل اس بات کو یقینی بنالیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے بچالیں گے۔ چنانچہ اس کی دعا کا آغاز اپنے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے پناہ و عافیت طلب کرنے سے ہوتا ہے۔ جہنم کی معرفت کے بعد یہ عین فطری رویہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس رویے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ابھی آخرت کے احوال کی معرفت حاصل نہیں ہوئی۔
مؤمن کی معرفت کا تیسرا پہلو جو جہنم کو اس کی دعاؤں میں فوقیت دے دیتا ہے وہ اس بات کا ادراک ہے کہ ابھی وہ زندہ ہے اور امتحان کی مشقت ابھی باقی ہے۔ اس کا جو بھی نیک و صالح عمل ہے وہ حال میں ہے۔ مستقبل کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ اس کا خاتمہ حسن عمل پر نہ ہو۔ ایسے میں جہنم سے عافیت کی دعا دراصل یہ درخواست ہوتی ہے کہ اسے دنیا میں برے اعمال اور نتیجتاً آخرت میں برے انجام سے بچایا جائے۔
صرف جنت مانگنے کے بجائے صرف جہنم کی پناہ مانگنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخرت میں انسان کو اگر جہنم سے بچالیا گیا تو لازماً اسے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جبکہ جنت میں داخل ہونے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے برے اعمال کی بنا پر میدان حشر کی سختیاں اور جہنم کے عذاب بھگت کر جنت میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ جہنم اور اللہ کی پکڑ سے پناہ مانگنا گویا اس چیز کو یقینی بنانا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو براہِ راست جنت میں داخل فرمائیں۔
خلاصہ یہ کہ انسان ایک انتہائی کمزور مخلوق ہے جبکہ جہنم بدترین عذاب کی جگہ ہے۔ ایسے میں عقلمندی یہی ہے کہ جنت مانگنے سے پہلے ہمیشہ جہنم سے اللہ کی پناہ مانگی جائے.
______
0 comments:
Post a Comment