آئی ایس آئی کا منہ زور گھوڑا جو پندرہ سال اصولوں کی سیاست کرکے کوئی خاص کار کردگی نہ دکھا سکا تو
مختصر راستہ اختیارکیا اور سابق آئی ایس آئی سربراہ جرنل پاشا کی مہربانی سے ایک سال میں لوٹوں کے ٹرک کے ٹرک تحریک انصاف میں ڈلنے شروع ہو گئے۔ ایک بھان متی کا کنبا تیار ہوا اور پھر الیکشن میں اترا۔ الیکشن بھی وہ جس میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے دھاندھلی اور بندر بانٹ کا الزام نہ لگایا ہو۔ خان صاحب نے الیکشن قبول کیا اور اب جبکہ حکومت کے ساتھ مقتدر اداروں کی کشیدگی پیدا ہوئی تو یہ صاحب یہ کہہ کر میدان میں اترے کہ ’’الیکشن قبول کیا ہے دھاندھلی نہیں‘‘ اب اس جملے کو یا خود خان صاحب سمجھیں یا پس پردہ ادارے۔۔۔۔۔۔۔جب الیکش قبول کیا تو دھاندھلی کسی کی شادی میں تو نہیں ہوئی تھی اور اگر دھاندھلی قبول نہیں کی تو الیکشن قبول کیسے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی دلہا کہے کہ شادی تو ٹھیک ہے قبول ہے مگر دلہن قبول نہین اس لئے بغیر دلہن کے قبول ہے اور بعد میں کہے کہ شادی قبول کی تھی دلہن نہیں۔ مزےدار بات یہ کہ آئی ایس آئی اور جیو کے ہاتھ ایک دوسرے کے بالوں میں پڑے تو خان صاحب نے جیو پر الزام لگایا اور بائیکاٹ کر دیا۔ ایک سال بعد خیال آیا کہ اوہوہوہوہو دھاندھلی میں تو جیو بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ خان کو سب سے زیادہ آسمان پر جیو نے چڑھایا۔۔۔۔۔اللہ کی شان کہ ساری شرپسند قوتوں کےآپس میں گریبانوں میں ہاتھ آگئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت تحریک انصاف سے سنبھالی نہیں جا رہی۔ پشاوری جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ایسے بڑ بولوں سے سب کو بچا کر رکھے۔۔۔۔۔۔۔چلتے نظام میں ہاتھ بلکہ لات دینے والے ناکام سیاست دان۔۔۔۔۔مزے کی بات یہ کہ جن اداروں نے الیکشن میں بندر بانٹ کی وہی ادارے اب ان کو اسی بندر بانٹ کے خلاف میدان مین اتار رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ صاحب ہیں کو کبھی بھی اپنے سابقہ موقف پر قائم نہیں رہتے۔۔۔۔۔ شیخ رشید، افتخار چوہدری، جیو نیوز اور فخرالدین جی ابراہیم کے بارے میں ان صاحب کے سابقہ اور موجودہ بیانات آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔۔۔۔۔
مختصر راستہ اختیارکیا اور سابق آئی ایس آئی سربراہ جرنل پاشا کی مہربانی سے ایک سال میں لوٹوں کے ٹرک کے ٹرک تحریک انصاف میں ڈلنے شروع ہو گئے۔ ایک بھان متی کا کنبا تیار ہوا اور پھر الیکشن میں اترا۔ الیکشن بھی وہ جس میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے دھاندھلی اور بندر بانٹ کا الزام نہ لگایا ہو۔ خان صاحب نے الیکشن قبول کیا اور اب جبکہ حکومت کے ساتھ مقتدر اداروں کی کشیدگی پیدا ہوئی تو یہ صاحب یہ کہہ کر میدان میں اترے کہ ’’الیکشن قبول کیا ہے دھاندھلی نہیں‘‘ اب اس جملے کو یا خود خان صاحب سمجھیں یا پس پردہ ادارے۔۔۔۔۔۔۔جب الیکش قبول کیا تو دھاندھلی کسی کی شادی میں تو نہیں ہوئی تھی اور اگر دھاندھلی قبول نہیں کی تو الیکشن قبول کیسے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی دلہا کہے کہ شادی تو ٹھیک ہے قبول ہے مگر دلہن قبول نہین اس لئے بغیر دلہن کے قبول ہے اور بعد میں کہے کہ شادی قبول کی تھی دلہن نہیں۔ مزےدار بات یہ کہ آئی ایس آئی اور جیو کے ہاتھ ایک دوسرے کے بالوں میں پڑے تو خان صاحب نے جیو پر الزام لگایا اور بائیکاٹ کر دیا۔ ایک سال بعد خیال آیا کہ اوہوہوہوہو دھاندھلی میں تو جیو بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ خان کو سب سے زیادہ آسمان پر جیو نے چڑھایا۔۔۔۔۔اللہ کی شان کہ ساری شرپسند قوتوں کےآپس میں گریبانوں میں ہاتھ آگئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت تحریک انصاف سے سنبھالی نہیں جا رہی۔ پشاوری جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ایسے بڑ بولوں سے سب کو بچا کر رکھے۔۔۔۔۔۔۔چلتے نظام میں ہاتھ بلکہ لات دینے والے ناکام سیاست دان۔۔۔۔۔مزے کی بات یہ کہ جن اداروں نے الیکشن میں بندر بانٹ کی وہی ادارے اب ان کو اسی بندر بانٹ کے خلاف میدان مین اتار رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ صاحب ہیں کو کبھی بھی اپنے سابقہ موقف پر قائم نہیں رہتے۔۔۔۔۔ شیخ رشید، افتخار چوہدری، جیو نیوز اور فخرالدین جی ابراہیم کے بارے میں ان صاحب کے سابقہ اور موجودہ بیانات آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment