Tuesday, May 6, 2014

شخصیات :- امتِ مسلمہ کے بطلِ عظیم امیر خطاب شہیدؒ کی مختصر سوانحِ حیات:

Leave a Comment
خطاب شہید ۱۹۷۰ ميں شمالی جزیرہ عربیہ کے شہر عرعر ميں پیدا ہوئے۔خطاب شہید اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔۱۹۸۷میں انگلش میں ماسٹر کرنے کے بعد خطاب کے لئے امریکا جانے کا وقت تھا تاکہ وہاں پر اعلی تعلیم حاصل کرسکیں ۔
یہی سال روس کے خلاف جہاد کے عروج کا سال تھا۔اس دوران عبداللہ عزام شہید اور تمیم عدنان کی تقاریر نے عرب نوجوانوں کے دلوں میں جذ بہ جہاد کا نہ بجھنے والا الاؤ روشن کیا۔ابھی خطاب کی عمر صرف ۱۹ سال ہی تھی کہ اس نے امریکا جانے کی بجائے افغانستان کا رخ کیا۔افغانستان ميں مجاہدین کے تربیتی مراکز ميں عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد ۱۹۸۹ ميں عملی طور پر روسیوں کے خلاف جہاد کا آغا ز کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہی لڑکا بیسویں صدی کے مشہور مجاہد کمانڈروں میں شمار کیا جانے لگا۔
افغانستان ہو ،تاجکستان ہو یا داغستان اور چیچنیا ہر معرکے میں خطاب نےمجاہدین کے ساتھ مل کر دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔روسیوں سے ایک جھڑپ کے دوران خطاب کو بارہ اعشاریہ سات ایم ایم کی تین گولیاں لگیں جن میں سے دو بازو اور ایک پیٹ میں ميں پیوست ہوئی۔ایک مرتبہ روسیوں کی طر ف سے پھینکے جانے والے گرنیڈوں کو اٹھا کر واپس روسیوں کی طر ف پھینک رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے چھوٹتے ہی ایک گرنیڈ موقع پر بلاسٹ ہو گیا۔اس طرح خطاب نے اپنی دو انگلیوں کو اللہ کی راہ میں قربان کیا۔خطا ب کی اس دیدہ دلیری اور شجاعت کی وجہ سے تمام مجاہدین ان کے گرویدہ ہوگئے۔
افغانستان میں مجاہدین کے مقابلے میں روس کو عبرتناک شکست ہونے کے بعد خطاب نے اپنے چند رفقا٫ کے ساتھ تاجکستان کارخ کیا جہاں انتہائی نا مساعد حالات میں جب کہ نہ استعمال کو ہتھیا ر ،نہ کھانے پینے اور لباس کا موثر انتظام تھا اور سردی ایسی کہ ہڈیوں میں گودا جم جائے مگر ان سب مشکلات کے باوجود خطاب اور اس کے ساتھیوں نے ۱۹۹۳ سے ۱۹۹۵ تک تاجکستان کی سرزمین کو دشمن کے لئے جہنم بنائے رکھا ۔
اس کے بعد چیچنیا کے کارزار انہیں دعوت مبارزت دیتے ہیں تو چیچنیا کی سرزمین پر پہنچتے ہیں ۔خطاب نے چیچن مجاہدین کو دینی اور جنگی علوم سکھانے شروع کردئیے اور بہت جلد ہی خطاب چیچن مجاہدین کے مقبول رہنما بن گئے۔اسی دوران خطاب نے چند زبردست کاروائیاں کیں جن میں شلقر ئی کا معرکہ کہ جسے روس کبھی نہیں بھلا سکتا ۔جب ۱۶اپریل ۱۹۹۶ کو ۵۰ مجاہدین نے گھات لگا کر روسی فوج پر دھاوا بول دیا جس میں ۲۲۳ روسی فوجی ہلا ک ہوئے جن میں کئی افسران بھی شامل تھے۔
ایک اور کاروائی میں جدید میزائل استعمال کر تے ہوئے روسی ہیلی کاپٹر مار گرایا۔22ستمبر کو روسی حدود کے اندر سو کلو میٹر آگے جا کر روس کی ۱۳۶ موٹو رائزڈ رائفل بریگیڈ پر حملہ کر دیا جس میں مجاہدین نے ۳۰۰ فوجی گاڑیا ں تباہ کر دیں اور سینکڑوں روسی فوجیوں کو واصل جہنم کر دیا۔
۱۹۹۶ ميں خطا ب کو چیچنیا کے مایہ ناز جنگی لیڈر کے طور پر تسلیم کیا گیااور انہیں چیچنیا کی اسلامی حکومت کی طرف سے جرنیل کا عہدہ دیا گیا۔۱۹۹۸ ميں جب داغستان کی کمیونسٹ حکو مت نے وہاں شریعت نافذ کرنے سے انکار کر دیا تو مسلمانوں نے اس کے خلاف باقاعدہ جہاد شروڎ ع کیا ۔داغستان کی حکومت نے روس سے فوجی امداد طلب کی جس کے جواب ميں روس نے اپنی افواج کی ایک بڑی تعداد داغستان ميں داخل کر دی اور مجاہدین کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔اس موقع پر داغستانی مجاہدین نے بھی اپنے پڑوسی چیچن مجاہدین سے مدد طلب کی تاکہ روسی افواج کا مقابلہ مل کر کیا جائے ۔عسکری مجلس شوری کے امیر شامل بسایوف اور آپریشنل کمانڈر خطاب نے انکی دعوت پر لبیک کہا ، ۱۹۹۹ ميں داغستانی مجاہدین نے بھی شامل بسایوف کو رہنما ٫ اور خطاب کو اپنا سپہ سالا ر بنایا۔مجاہدین کے ہاتھوں پٹنے کے بعد روسی افواج نے بھر پور جنگی طاقت استعمال کی اور شہری آبادی پر دن رات بمباری شروع کر دی ۔جس کے نتیجے ميں محدود وسائل کی بنا٫ پر مجاہدین کو اپنے مورچے خالی کرنے پڑے۔یہ حالات دیکھ کر عسکری مجلس شوری نے باقاعد ہ مورچہ بند ہو کر لڑنے کی بجائے گوریلا جنگ کو ترجیح دی اور داغستانی مجاہدین کو لے کر چیچنیا کے بارڈر کے قریب آگئے اور روس کے خلا ف گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ خطاب اور اس کے ساتھی گروزنی لوٹ آئے اور پہاڑوں میں رہ کر گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔جہاں مجاہدین کے ہر دلعزیز رہنما ٫ شامل بسایوف اور خطاب جنگ کو چیچنیا اور داغستان سے نکا ل کر ماسکو کے ایوانوں تک پہنچادیا ۔
۱۹۹۹میں ماسکو میں ہونے والے بم دھماکو ں سے روسیوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔روس نے ان دھماکوں کا ذمہ دار شامل بسایوف اور خطاب کو ٹھرایا اور دونوں کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیا۔جب خطاب سے ان دھماکوں کے بارے ميں پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ ڈالا کہ یہ چیچنیا اور داغستان ميں روسی فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کا انتقام نہیں ہو سکتا ۔خطاب کہتے تھے کہ عالمی میڈيا کو ماسکو کے دھماکے تو نظر آتے ہيں مگر گروزنی کی سڑکو ں پر بہنے والا معصوم بچوں کا خون اور تڑپتی لاشيں کیوں نظر نہيں آتیں۔ خطاب کا نام روس کے لئے خوف و دہشت کی علامت بن گیا تھا۔خطاب کی جنگی صلا حیتوں نے روسیوں کی نینديں حرام کر دی تھی۔ روسیوں نے اپنے اعلی تکنیکی وسائل اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد حربوں سے خطا ب کو شہید کر نے کی کوشش کی لیکن ہربار ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔
بالآ خر مارچ ۲۰۰۲ کے آخری عشرے ميں روسی فوج نے جو کہ میدان جنگ میں اللہ کے سپاہی کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کرسکتی تھی بزدلی کا راستہ اختیا ر کیا اور ایک نا م نہاد مسلمان منا فق کو خطا ب کے نام ایک زہریلا خط دے کر بھیجا ۔منافق دراصل روسی ایجنٹ تھا جو کہ غیر مشکوک طریقے سے مجاہدین کے درمیا ن رہ رہا تھا۔خطاب نے جیسے ہی خط کھولا ، زہر نے شدید طریقے سے اثر انداز ہونا شروع کیا اور صر ف پانچ منٹ کے عرصے میں خطا ب نے جام شہادت نوش کیا۔اللہ آپ کی شھادت قبول فرمائے۔آمین
خطاب شہید بارہ ۱۲ سال سے اپنے گھر نہیں گئے تھے جب کبھی والدہ سے فون پر بات ہوتی تو والدہ گھر آنے کا کہتی تو ان کا جواب یہی ہوتا کہ اگر ہم گھر بیٹھ گئے تو یہ کا م کون کرے گا؟ خطاب شہید نے اپنی سیرت سے حضرت خالد بن ولید[رضی اللہ عنہ]، حضرت عمر [رضی اللہ عنہ ] اور حضرت ابو عبیدہ [رضی اللہ عنہ ] کی یاد تازہ کردی اور مسلمانوں کے لئے ایک اور رول ماڈل بن کر اللہ کے حضور پہنچ گیا ۔

0 comments:

Post a Comment