تاریخ سے سبق نہ لینے والے
خود تاریخ بن جاتے ہیں۔ نوشتہ
دیوار نہ پڑھنے والے دیواروں کے پیچھے چھپ
جاتے ہیں۔ زندہ وہ قومیں رہ جاتی ہیں جو حقیقت کا سامنا کریں اور حالات کا دھارا
تبدیل کرنے کا تہیہ کرلیں۔تربیت یافتہ افراد
اور جہد مسلسل البتہ حصول منزل کو
آسان کردیتا ہے۔ دیر بالا کے ضمنی الیکشن میں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ۔ یہ بحث ابھی تک جاری ہے کہ جماعت اسلامی جیسی اصولی پارٹی نے جعلی ڈگری
رکھنے والے اپنے ایک رکن اور ممبر اسمبلی
کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کیوں نہ کی۔
اگرچہ ہنوز یہ معاملہ جماعت اسلامی کی اصول پسندی، اخلاقی برتری اور اندرونی
جمہوریت سمیت خوداحتسابی کے دعوؤں کو سوالیہ نشان بنارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کیوں ہار
گئی اور اب کیا کرے۔ ہارنے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں سے دو انتہائی اہم
ہیں۔ ایک یہ کہ جماعت اسلامی نے اپنی حلیف پارٹی پی ٹی آئی کو کیوں قائل نہ کیا کہ
وہ اپنا امیدوار کھڑا کرتے۔اسلیئے کہ پی
ٹی آئی والوں نے اپنی اتحادی جماعت کی
بجائے مخالف امیدوار کو ووٹ دیا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کو بہت نقصان اٹھانا
پڑا اور یہ بات انہونی بھی نہیں تھی۔ کیونکہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں خاصکر دیر
کی تحصیل ادینزائی میں پی ٹی آی نے اپنی حلیف
جماعت اسلامی کو باوجود اتحاد کے
ووٹ نہیں دیا تھا۔ لیکن افسوس کہ اس بار بھی
داعیان اسلام نہیں سمجھے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہوکہ دیر میں پی ٹی
آئی جماعت اسلامی کو سٹیٹس کو سمجھتی ہے۔
ا ب تبدیلی کے متوالوں نے ثناء اللہ کی
صورت میں پرانا داعی انقلاب اور حالیہ جیالا دیکھ لیا جو جماعت اسلامی کو ٹف ٹایم دے سکتا تھا۔ تو چلتی
گاڑی میں یہ بھی سوار ہوگئے۔ اور بالاخر
جماعت اسلامی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی۔
دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ جماعت اسلامی نے ملک بہرام کے بیٹے کو ٹکٹ دیا۔ جس سے اس بحث نے بھی جنم لیا تھا
جو ابھی بھی مدھم آواز میں جاری ہے۔کہ جماعت میں موروثیت کیوں شروع کی گئی ۔ اور
اس واقعے کو مخالفین سمیت جماعت اسلامی کے ان کارکنان نے بھی خوب اچھالا۔ جو جماعت
کو مروجہ سیاسی پارٹی سے زیادہ اسلامی
تحریک سمجھتے ہیں۔ اس فکر کے کارکنان جو
پہلے سے اس بات پر پریشان تھے کے جعلی ڈگری پر بہرام خان کا مواخذہ کیوں نہ کیا
گیا اوپر سے اس کے بیٹے کو ٹکٹ دینا گویا
موصوف کی غلطی کو سند قبولیت فراہم کرنا تھا۔ یعنی
بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا خریدنا کے مصداق ٹھری۔لہذا ثناءاللہ جو جماعت اسلامی
کے رکن سے پیپلز پارٹی کے جیالے بنے تھے
اور دیر کے مذہبی گھرانے یعنی صاحبزادہ
خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
جماعت اسلامی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں محدود
پارلیمانی قوت رکھنے کے باوجود سٹریٹ پاور
رکھتی ہے اور کسی بھی وقت بطور پریشر گروپ حکومت کیلئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ یہ پارٹی ملک کے اندر اندرونی جمہوریت ، مخصوص
طرز فکر ،خود احتسابی اور اپنے نظریئے سے کمٹمنٹ کےحوالے سے مشہور ہے۔ جبکہ بیرونی دنیا کی
اسلامی تحریکوں سے بھی اس پارٹی کا رابطہ گزشتہ
سے پیوشتہ ہے ۔
اب
جماعت اسلامی کے سامنے دو سوال ہیں۔ ایک
اخلاقی لحاظ سے دوسرا سیاسی لحاظ سے۔
پہلا
سوال یہ کہ حالیہ جعلی ڈگری کیس کے بعد
جماعت اسلامی کا کوئی لیڈر سینہ تان کے
کہہ سکے گا۔کہ جماعت اسلامی میں کوئی جعل ساز نہیں؟ اس حال میں کہ ابھی تک کوئی پالیسی بیان بھی
جماعت نے جاری نہیں کیا۔
دوسرا سوال یہ کہ کیا اپنے خول میں بند جماعت اسلامی مستقبل
کے سیاسی اکھاڑے میں کوئی کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے ؟؟ جبکہ اس پارٹی کے کارکنان
اپنی ہر ناکامی کے پیچھے امریکہ ، اسرائیل اور ملکی نادیدہ قوتوں کو ذمہ دار ٹہرا
رہے ہیں۔
اہم نکتہ یہ کہ اب
جماعت اسلامی کیا کرے۔ اخلاقی لحاظ
سے ایک پالیسی بیان جاری کیا جاسکتا ہے۔جس میں جعلی سازی کے حوالے سے جماعت کی
پالیسی واضح ہو۔ پارٹی کے اندر موجوہ احتساب
کے نظام کو موثر بنا کر دوٹوک
فیصلے کرنے ہونگے۔تاکہ کارکنان اور عوام کے ذہن میں یہ تاثر پیدا کیا جاسکے کہ یہ
پارٹی اب بھی اپنے اصولوں پر قایم ہے۔
سیاسی حوالے سے اس پارٹی کے لوگوں کو اپنے مخصوص طرز فکر کو
چھوڑنا ہوگا۔ عوام کے درمیان آ کر ان کے مسایل حل کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہیے ۔
عالمگیر انقلاب کے خوشنما نعرے کو کچھ وقت کیلئے چھوڑ کے اپنے سیاسی اور تنظیمی
دنیا میں انقلاب لانا ہوگا۔ بصورت دیگر صرف نعرے ہی نعرے رہ جاینگے تو پھرنقار
خانے میں طوطی کا کون سنتا ہے
اس ساری بحث میں ایک اور اہم نکتہ یہ شامل کرتا چلوں کہ
پارٹی کے موجودہ امیر جو اپنی شخصیت میں ایک نفیس انسان ہے کے دور انتخاب میں جماعت
اسلامی کے اندر نظریاتی اور سیاسی کارکنان
کے درمیان ایک بڑھتا ہوا خلیج موجودہے جو بدقسمتی سے اب بھی کئی سادہ لوح دوستوں
کو نظر نہیں آرہا۔ وقت کے ساتھ بڑھتے اس خلیج کو پر نہ کیا گیا۔ تو پھر اپنے آپس
میں الجھے عالمگیر انقلاب کے داعی ان مخلص پاکستانیوں کیلئے افسوس ہی کیا
جاسکتا ہے۔
الیکشن ہارنے کے بعد جماعت کے رہنماوں نے اپنے ہارنے والے
امیدوار کیساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام ذمہ داری پی ٹی آی پر ڈال دی ۔ جو یقینا اس وقت ایک غلط شاٹ
کھیلنے کے مترادف ہے ۔ بہرحال اس غلط شاٹ
کا عمران خان نے ایک پنجابی شعر کے ذریعے جواب دے کر ماحول کو کشفت و زعفران
ببنا دیا ورنہ اتحاد پر گہرئے سیاہ بادل بھی
چھا سکتے تھے۔بہتر ہوتا اگر جماعت اپنے صفوں کا جائزہ لیتی اور مقامی طور پر کیے گیئے اپنے فیصلوں پر سوچتی کہ
غلطی کہاں ہوئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ آنے
والے الیکشن کیلئے اب سے تیاری کی جائےورنہ ازلی اصول یہ ہے کہ تاریخ سے سبق نے لینے والے خود تاریخ بن جاتے ہیں۔ نوشتہ دیوار نہ پڑھنے والے دیواروں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ زندہ
وہ قومیں رہ جاتی ہیں جو حقیقت کا
سامنا کریں اور حالات کا دھارا تبدیل کرنے کا تہیہ کرلیں۔
نوٹ:
کالم تمام ہوا تو ایک باوثوق ذرائع نے کنفرم کیا۔کہ کچھ
قوتوں نے طے کیا تھاکہ اس دفعہ یہ سیٹ جماعت اسلامی کو نہیں ملی گی۔ اب ایسا کیوں
ہوا؟ تو اس کا جواب تو جانتے ہونگے جنہوں نے یہ طے کیا تھا۔